Wednesday, November 4, 2015

شہباز شریف بمقابلہ پرویز خٹک

شہباز شریف بمقابلہ پرویز خٹک

مَیں وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے طرز حکمرانی کی تعریف کرتا رہا ہوں مگر پلڈاٹ کی طرز حکمرانی بارے رپورٹ نے یقینی طور پر مسلم لیگ(ن) کی وفاقی اور صوبائی حکومتوں بارے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ مجھے اس رپورٹ میں ایک تضاد نظر آ رہا ہے جسے رپورٹ مرتب کرنے والوں نے بھی تسلیم کیا ہے کہ شہباز شریف کی اپروول ریٹنگ 78 فیصد ہے اور اسی طرح ان کی حکومت 76 فیصد ریٹنگ کے ساتھ تمام صوبائی حکومتوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ مقبول حکومت کے طور پر سامنے آتی ہے، پرویز خٹک کی حکومت 38 فیصد اپروول ریٹنگ کے ساتھ ان سے مقبولیت میں کہیں زیادہ پیچھے ہے، مگر طرز حکمرانی کے 28 میں سے 18 اشاریوں میں مثبت درجہ بندی کے ساتھ کہیں آگے کھڑی بھی نظر آتی ہے۔ کیا اس کا مطلب یہ لیا جائے کہ مقبولیت کی عمارت کی بنیادیں بہترطرز حکمرانی کے سوا کہیں اور بھی ہیں۔ مجھے یہاں چودھری پرویز الٰہی یاد آ گئے، آمریت کی حمایت اور کرپشن کے الزامات کو فی الوقت نظر انداز کرتے ہوئے، ان کااصلاحات پر مبنی انداز حکمرانی مثالی قرا ر دیا جاتا تھا۔
پلڈاٹ نے اس سے قبل جب نواز شریف اور شہباز شریف کو ملک کامقبول ترین لیڈر قرار دیاتھاتو عمران خان کے حامیوں نے سوشل میڈیا پر اس ادارے کی ایسی تیسی کرنا شروع کر دی تھی، اب عین ممکن ہے کہ انصافی اس رپورٹ کو چومنا چاٹنا شروع کردیں کہ ہمارے معاشرے میں حق اسی کو سمجھا جاتا ہے، جو اپنے حق میں ہو۔بہرحال میرے تجزئیے کا سیاسی جماعتوں کے ردعمل سے کوئی تعلق نہیں۔ رپورٹ گڈ گورننس کی عالمگیر شہرت رکھنے والے شہباز شریف کے لئے یقینی طور پر خوش کن نہیں ہونی چاہئے کہ پرویز خٹک اپنی حکمرانی کے دس شعبوں میں شہباز شریف سے زیادہ ’’ پاس‘‘ ہوئے ہیں ،مگر جہاں دونوں حکومتوں کی کارکردگی کو 50فیصد سے کم، سرخ رنگ میں، منفی اپروول ریٹنگ کے ساتھ فیل کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے وہاں بھی پرویز خٹک کے کہیں نمبرزیادہ ہیں۔ یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے دو بچے کلاس میں فیل ہوئے، ایک بارہ نمبر لے کر فیل ہو ا اور دوسرا بتیس نمبر لینے کے باوجود ناکام ٹھہرا۔ یہ امر شہباز شریف اور ان کی ٹیم کے لئے انتہائی پریشان کن ہونا چاہئے کہ وہ اٹھائیس میں سے صرف چار شعبوں میں پرویز خٹک سے زیادہ نمبر حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ وہ اپنے قریبی حریف سے یوٹیلٹی بلز کلیکشن میں 5فیصد، ڈویلپمنٹ پروگراموں میں 2فیصد، ایمونائزیشن آف چلڈرن میں 1فیصداور پبلک ٹرانسپورٹ میں 4فیصد زیادہ نمبر لے سکے ہیں۔ باقی چوبیس شعبوں میں شہباز شریف کے مقابلے میں پرویز خٹک نے ،امن و امان کی بحالی میں 51فیصد کے مقابلے میں 72فیصد،غربت کے خاتمے میں 29فیصد کے مقابلے میں 46فیصد، تعلیم کے میدان میں 75فیصد کے مقابلے میں 80فیصد، ہیلتھ کئیر میں 60فیصد کے مقابلے میں 75فیصد، توانائی کے منصوبوں کے دھڑا دھڑ افتتاحوں کے باوجود 37فیصد کے مقابلے میں 40فیصد، اینٹی کرپشن میں 23فیصد کے مقابلے میں 51فیصد، ٹرانسپیرنسی میں 25فیصد کے مقابلے میں 55فیصد، صاف شفاف اور بچت کے ساتھ پبلک پروکیورمنٹ میں 24فیصد کے مقابلے میں 47فیصد، ماحولیات میں 32فیصد کے مقابلے میں 59فیصد، لوکل گورنمنٹ کے قیام اور اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی میں26فیصد کے مقابلے میں 56فیصد اور اسی شعبے میں وسائل کی نچلی سطح پر منتقلی میں24فیصد کے مقابلے میں 40فیصد، موثر عدالتی نظام تک رسائی میں 39 فیصد کے مقابلے میں 59فیصد، معیاری اور خود مختار نوکرشاہی میں22 فیصد کے مقابلے میں 37 فیصد، بے روزگاری کی مینجمنٹ میں 25 فیصد کے مقابلے میں 41فیصد،صاف پانی کی فراہمی میں 44 فیصد کے مقابلے میں 61فیصد، سینی ٹیشن میں 35 فیصد کے مقابلے میں52 فیصد، واٹر ریسورس ڈویلپمنٹ اینڈ مینجمنٹ میں 41 فیصد کے مقابلے میں57 فیصد اپروول ریٹنگ حاصل کی ہے۔ مجھے نواز لیگ والوں سے ادب و احترام کے ساتھ کہنے دیجئے کہ اگر آپ پلڈاٹ کی اپنی قیادت بارے مقبولیت رپورٹ درست تسلیم کرتے ہیں تو پھر چار وناچار اسے بھی درست تسلیم کرنا پڑے گا۔ یہاں آپ اپنی طویل حکمرانی کے باوجودپی ٹی آئی سے نالائق ثابت ہورہے ہیں۔
یہ درست ہے کہ پنجاب اپنی آبادی اور رقبے کے حوالے سے بعض حوالوں سے خیبرپختونخو اکے مقابلے میں انتظام و انصرا م میں مشکل ہے، مگر مشکلات کا سامناتو خیبرپختونخوا والوں کو بھی ہے۔ پلڈاٹ کی اس رپورٹ نے شہباز شریف کی حکمرانی کی انتہائی بری تصویر پیش کی ہے اور یوں لگتا ہے کہ میٹر و اور اورنج لائن جیسے منصوبوں پر اپنی زیادہ توجہ صرف کرنے والے وزیراعلیٰ کوڑھی کے منہ پر میک اپ کر کے اسے خوبصورت بنانے کے لئے کوشاں ہیں، مگر کوڑھ کے علاج کا مرض کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ تعلیم اور صحت کے میدان میں بھی تجربات جاری ہیں، جبکہ تھانہ کلچر کی بہتری کے لئے تو تجربات کرنے کی بھی زحمت نہیں کی جا رہی، ان کی بیوروکریٹک ٹیم ابھی بھی پرویز الٰہی کی ٹیم کے مقابلے میں ٹین ایجر اور ناتجربہ کار سمجھی جاتی ہے۔وزیراعلیٰ شہباز شریف ایک ہم درد اور غریب دوست حکمران کے طور پر جہاں بھی زیادتی یا قتل کے واقعات ہوتے ہیں ، نہ صرف خود پہنچتے ہیں، بلکہ پوری انتظامیہ کو متحرک کر دیتے ہیں، مگر دوسری طرف جب میں زین قتل کیس میں ان کے پارٹی کے کانجو فیملی سے تعلق رکھنے والے بااثر اور دولت مند رہنما کے بیٹے کو سرعام قتل کرنے کے بعد، لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک وفاقی وزیر کی مبینہ سرپرستی کے ساتھ، بری ہوتے ہوئے دیکھتا ہوں تو میرا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ یہی کہانی سکرپٹ میں تھوڑی سے تبدیلی کے بعد ہم نے شاہ زیب اور ریمنڈ ڈیوس کیسوں میں سنی ا ور دیکھی تھی، مگر نواز شریف اور شہباز شریف پولیس، پراسیکیوشن،گواہی کے نظام،ماتحت عدلیہ پر بوجھ اور وہاں کرپشن پر کوئی اصلاحات نہیں کر سکے۔ اب ہر دولت مند کے پاس لاکھوں ، کروڑوں روپوں کی صورت قتل کا لائسنس موجود ہے اور مجھے اپنے اس معاشرے سے گھن محسوس ہو رہی ہے۔ کیا یہ الزام بھی اہم نہیں کہ سیاسی میدان میں مسلم لیگ (ن) تیزی سے مسلم لیگ خون میں تبدیل ہوتی چلی جار ہی ہے۔ اس پرسانحہ ماڈل ٹاون سے لے کرابھی دو روز قبل قتل ہونے والے دو سیاسی کارکنوں تک اب تک بے شمار الزامات لگ چکے ہیں اور تاثر یہ بن رہا ہے کہ مسلم لیگ(ن) کا صدیق کانجو ہو ،رانا ثناء اللہ خان ہو یا کوئی ماجھا گاما، کوئی بھی سزا نہیں پا سکتا۔
مَیں پھر کہوں گا کہ میں شہباز شریف کے درد دل ا قائل ہوں، مگر اس دل کے اس درد کی عکاسی یہ اعداد و شمارنہیں کرتے۔ صوبائی محکموں کی کارکردگی پر اپروول ریٹنگ بھی کابینہ اور پالیسی پر کسی بڑی اوورہالنگ اور آپریشن کا مطالبہ کرتی نظر آتی ہے۔خیبرپختونخوا کے مقابلے میں پنجاب کے محکموں کی اپروول ریٹنگ پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے، خیبرپختونخوا کے تعلیم کے محکمے کے 86نمبروں کے مقابلے میں پنجاب کے محکمہ تعلیم کے 78،ہیلتھ کے 85نمبروں کے مقابلے میں 67، داخلہ کے 57 نمبروں کے مقابلے میں 33، فنانس ڈپیارٹمنٹ کے 56 نمبروں کے مقابلے میں31، ایگریکلچر کے 53 نمبروں کے مقابلے میں40، لوکل گورنمنٹ ڈپیارٹمنٹ کے لئے 56نمبروں کے مقابلے میں26،مائنز اینڈ منرلز کے 36 نمبروں کے مقابلے میں16،جنگلات کے 55نمبروں کے مقابلے میں 24 اور خیبرپختونخوا کے پی اینڈ ڈی ڈپیارٹمنٹ کے 48 نمبروں کے مقابلے میں پنجاب کے اسی محکمے نے 39 نمبر حاصل کئے ہیں۔ میرے خیال میں ن لیگی دوستوں کے پاس اس رپورٹ کا جواب دینے کے لئے ایک روایتی اور آسان آپشن تو یہ ہے کہ وہ پلڈاٹ بارے وہی زبان استعمال کریں جو چند روز قبل پی ٹی آئی نے استعمال کی تھی، اس کی کرپشن، مُلک دشمنی اور بغض پر مبنی پالیسیوں پر زور دیتے ہوئے ممکن ہو تو پابندی ہی عائد کر دی جائے ورنہ دوسرا آپشن تو بہت سخت اور مشکل ہے۔ آپ کو اپنی ٹیم اور حکمت عملی دونوں پر ہی از سر نو غور کرنا ہو گاکہ اب سیاست خدمت اور کارکردگی کا دوسرا نام ہے اور سیاسی میدان میں مقابلہ توقعات سے زیادہ سخت ہوتا چلا جا رہا ہے۔ پلڈاٹ کی اس رپورٹ نے چین سموکر اور کنٹینر پر ناچنے کا تاثر رکھنے والے پرویز خٹک کو گڈگورننس والے متحرک شہباز شریف سے بہتر ثابت کیا ہے۔

No comments:

Post a Comment