Thursday, November 5, 2015

بچے کا تجسس کیسے قتل ہوتا ہے ؟

بچے کا تجسس کیسے قتل ہوتا ہے ؟







میری21 ماہ کی بیٹی نے میری انگلی پکڑی اور مجھے ٹیرس کی طرف لے گئی۔ نیچے سڑک زیرِ
 تعمیر تھی۔مجھے اندازہ ہوا کہ اس نے سٹرک پر کوئی نئی چیز ضروردیکھی ہے ...
میری21 ماہ کی بیٹی نے میری انگلی پکڑی اور مجھے ٹیرس کی طرف لے گئی۔ نیچے سڑک زیرِ تعمیر تھی۔مجھے اندازہ ہوا کہ اس نے سٹرک پر کوئی نئی چیز ضروردیکھی ہے ۔اوراب مجھے وہ چیز دکھانا چاہ رہی ہے ۔جنگلے کے قریب پہنچ کر اس نے سڑک کی طرف انگلی سے اشارہ کیا اور کہنے لگی:’’وہ، وہ‘‘ ۔بے اختیار میرے ہونٹوں پہ مسکراہٹ آگئی۔سامنے بجری پڑی تھی۔جو کچھ دیر پہلے ہی ٹرک سے اتاری گئی تھی ۔ میری بیٹی حیران ہورہی تھی کہ سڑک پر یہ ڈھیر کیسا ہے اور اچانک کہاں سے آگیا ہے؟ بچہ اور تجسس تجسس بچے کا امتیازی نشان ہوتا ہے وہ ہمیشہ کھوج میں لگا رہتا ہے کہ اس کے ارد گرد چیزیں کیاہیں، کیسی ہیںاور کیوں ہیں۔ آسمان پر چمکتا چاند، ہوا میں اڑتے پرندے، چھت پر لگا پنکھا، دیوار پر لٹکا مکڑی کا جالا، چولھے میں جلتی آگ، ٹونٹنی سے ٹپکتا پانی، پھولوں پر منڈلاتی تتلی اسے حیران کردیتے ہیں ۔ وہ اس حیرت انگیز دنیا کو دریافت کرنا چاہتا ہے ۔اسے علم ہوتا ہے کہ اس کے والدین معلومات کا خزانہ ہیں اور وہ اسے اَن دیکھی دنیا کی سیر کرا سکتے ہیں ۔ اسے یہ بھی پتا چل جاتا ہے کہ زبان ہی وہ ذریعہ ہے جس کی مدد سے وہ اپنے والدین سے معلومات حاصل کرسکتا ہے ۔ چنانچہ وہ زبان سیکھتا ہے ۔لیکن زبان سیکھنے میں تو وقت لگتا ہے اور اس کا تجسس اسے چین سے بیٹھنے نہیں دے رہا ہوتا۔ چنانچہ زبان سیکھنے تک وہ انگلی ، ہاتھ اور آنکھ کے اشاروں سے سوال پوچھنا شروع کردیتا ہے ۔اس کا انگلی اٹھانا محض ہاتھ کا اشارہ نہیں ہوتا ۔ اس میں ایک سوال چھپا ہوتا ہے ۔ ’’یہ شے کیا ہے؟ کیوں ہے ؟میں اس کے بارے جاننا چاہتا ہوں‘‘۔ بچہ جب زبان سیکھ جاتا ہے تو اس کے معصومانہ سوالات سن کر آپ کو ہنسی آتی ہے ۔ بعض اوقات آپ کو اس کے سوالات بے تکے بھی لگتے ہیں۔ لیکن یہ سوالات بے تکے ہر گز نہیں ہوتے ۔بچہ دراصل دنیا کو تازہ نظر سے دیکھ رہاہوتا ہے۔ ’’دادا کی ڈاڑھی کیوں ہے؟‘‘، ’’چڑیا کھانا کہاں سے کھاتی ہے؟‘‘،’’آگ کیوں جلتی ہے؟‘‘، ’’انکل کے سر پر بال کیوں نہیں ہیں؟‘‘۔ سچی بات یہ ہے کہ بچے کو جوابات دینے کے لیے آپ کو بھی ہر شے کو تازہ نظر سے دیکھنا پڑتا ہے ۔ اسی طرح بعض اوقات بچہ بہت مشکل سوالا ت کرتا ہے۔ ’’لوگ کیوں مر جاتے ہیں؟‘‘، ’’میں کہاں سے آیا ہوں؟‘‘، ’’خدا کیا ہے؟‘‘ ۔ آپ پریشان ہوجاتے ہیں کہ بچے کے ان سوالات کے کیا جوابات دیے جائیں۔ ایسے جوابات جو اس کی عمر اور سمجھ کے مطابق ہوں۔ سوال ، سوال، سوال۔۔۔ بچہ سوال پر سوال کرتا ہے ۔ وہ اتنے سوالات کرتا ہے کہ بعض اوقات آپ تنگ آجاتے ہیں ۔ ایک تحقیق کے مطابق4 سال کی بچی تقریباًہر 1 منٹ 56 سیکنڈ بعد ایک سوال کرتی ہے۔ Professor Michelle Chouinard کے مطابق ایک بچہ اپنے سرپرست کے ساتھ تعامل میںجتنے سوالات کرتا ہے ۔ ان میں سے تقریباً ایک تہائی سوالات توجہ کے حصول کے لیے ہوتے ہیں جب کہ دو تہائی سوالات معلومات حاصل کرنے کے لیے ہوتے ہیں ۔ بچہ صرف پوچھتا ہی نہیں ہے وہ خود تجربہ کر کے بھی چیزوں کو کھوجتا ہے ۔ فیڈر سے دودھ زمین پر گرا کر اس کی دھار دیکھتا ہے ، برف کو چھو کر اس کی ٹھندک محسوس کرتا ہے ، آگ کے شعلے کو پکڑ کر اس تپش جانچتا ہے ،لیموں کو چکھ کر اس کی کھٹاس معلوم کرتا ہے، پودے کو اکھاڑ کے اس کی جڑ کا معائنہ کرتا ہے۔ یہ اس کے چھوٹے چھوٹے تجربات ہیں۔ بچہ ایک ننھا سا سائنسدان ہوتا ہے۔ وہ پانی کوباری باری مختلف برتنوں میں ڈال کر مائع کی تبدیل ہوتی شکلوں کا مشاہدہ کرتا ہے ۔ بلندی سے موبائل گرا کر اور بار بار بلب آن آف کرکے سبب اور نتیجہ(Cause and Affect) جاننا چاہتا ہے ۔ تجسس کا معجزہ بچہ ابتدائی چند برسوں میں جتنا کچھ سیکھ جاتا ہے جائزہ لیں تو آپ حیران رہ جائیں گی۔وہ ایک زبان مکمل طور سیکھ جاتا ہے ، جسمانی حرکات میںکمال حاصل کر لیتا ہے ، معاشرتی مہارتوں میں درک حاصل کرلیتا ہے ۔ ماحول کی آوازوں ،چرند پرند کی بولیوں، چیزوں کے ذائقوں ، اشیا کی ماہیت اور ان کی اشکال ، غصے اور محبت کے احساسات کے بارے میں جان جاتا ہے ۔ ذرا تصور کریں کہ پیدائش کے وقت بچہ ان میں سے کچھ بھی نہیں جانتا ۔ وہ صفر کے مقام پر کھڑا ہوتا ہے ۔وہ مختصر وقت میںکہاں سے کہاں پہنچ جاتا ہے۔یقینا یہ اس کی بہت بڑی کامیابی (achievemnet) ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بچہ آخر اتنی ساری چیزیں کیسے سیکھ لیتا ہے؟اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ یہ اس کے اندر کا تجسس ہے جس کی مدد سے وہ سیکھنے میں دلچسپی لیتا ہے ،سیکھتا ہے اور سیکھتا چلا جاتا ہے ۔ دوسرے الفاظ میں گویا تجسس سیکھنے کی بنیا دہے اور یہ دراصل سیکھنے کی طاقت ورخواہش کا نام ہے ۔ اگربچہ اس تجسس کو لے کر پروان چڑھے اور یہ تجسس اس کے ساتھ رہے تو گویااس کے پاس عمر بھرسیکھنے کا ہنر (Life Time Learning) آگیاہے ۔ انسانی دماغ اور تجسس بچے کے دماغ کے لیے سب سے زیادہ پسندیدہ شے’تجسس‘ ہے۔ دماغ میں جستجو اور سیکھنے کا ایک خاص میکانزم (Seeking Mechanism) ہوتا ہے ۔ تجسس اس میکانزم کو ترقی دیتا ہے ۔تجسس بچے کے سیکھنے کا انجن بھی ہوتا ہے ۔ اسی کی مدد سے وہ سیکھنے کی دنیا میں آگے بڑھتا ہے ۔ اس کے لیے سیکھنے سے بڑھ کر کوئی مسرت انگیز عمل نہیں ہوتا ۔وہ چیونٹیوں کی چلتی ہوئی قطار دیکھ کر رک جاتا ہے اور اس کے مشاہدے میں کھوجاتا ہے ۔ وہ ننھی منی متحرک مخلوق کو دیکھ کر خوشی سے قلقاریاں مارنے لگتا ہے ۔ ممکن ہے کہ آپ کی انگلی پکڑ کر لے آئے اورآپ کو بھی اپنی خوشی میں شریک کرے۔ دریافت کا یہ عمل اتنا وجد آفریں ہوتا ہے کہ وہ اس کو بار بار دہرانا چاہتا ہے ۔ ایک کے بعددوسری دریافت کرتا ہے ۔اس دریافت میںوہ کئی ایک مہارتیں حاصل کرلیتا ہے ۔ تجسس کے وقت بچہ اتنا خوش کیوں ہوتا ہے ؟اور ان لمحات میں وہ اتنا جلدی کیوں سیکھ جاتا ہے ؟ماہرین کے مطابق دماغ میں ایک سرکٹ ہوتا ہے جو ہمیں توانائی دیتا ہے ۔ یہ سرکٹ اس وقت روشن ہو جاتا ہے جب بچے کو شاباش ملتی ہے یا اسے کوئی انعام دیا جاتا ہے یا وہ اپنی پسندیدہ آئس کریم حاصل کرتا ہے ۔ اور یہ اس وقت بھی روشن ہوجاتا ہے جب بچہ متجسس ہورہا ہوتا ہے ۔ اس وقت دماغ ایک کیمیائی مادہ خارج کرتا ہے جسے Dopamine کہتے ہیں ۔ یہ مادہ دماغ کے ان خلیوں کا آپس میں ربط بڑھادیتا ہے جو سیکھنے میں کردار ادا کرتے ہیں ۔تجسس کے وقت ہی دماغ کے اس حصے کی سرگرمی بھی بڑھ جاتی ہے جو Hippocampus کہلاتا ہے ۔ دماغ کا یہ حصہ یاداشت اور معلومات کو یاد رکھنے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے ۔چنانچہ جن باتوں پر بچہ متجسس ہورہا ہوتا ہے وہ ان کو جلدی سیکھ لیتا ہے اور وہ اس کی یادداشت کا جلدی اور فوری حصہ بن جاتی ہیں ۔ سکول اور بچے کا تجسس بچے کے پاس تجسس ہوتا ہے ۔ جو اس کے سیکھنے کی بنیاد کا پتھر ہوتا ہے ۔ سکول چاہتا تو تعلیم کی عمارت اس پر کھڑی کردیتا ۔اس طرح بچے کے سیکھنے کا عمل مزے سے اور موثر اور فطری اندازجاری رہتا ۔بچہ معلومات حاصل کرنے کا مشتاق ہوتا، سوالات پوچھ رہا ہوتا، تصورات کی تحقیق کر رہا ہوتا، مطالب کی جستجو میںلگا ہوتا ، سیکھی گئی باتوں کا فطرت اور ماحول سے تعلق جوڑ رہا ہوتااور سیکھنے کے لیے نئے نئے تجربات کررہا ہوتا۔ لیکن افسوس ایسا کچھ نہیں ہوتا ۔سکول میں بچے کے تجسس کو نظرانداز کرکے سیکھنے کی بنیاد تعلیمی معیارات (Learning Standards) اور جائزے (Assessment) پر رکھ دی جاتی ہے۔ اور اسی کو سامنے رکھ کر تدریسی حکمت عملی بروئے کار لائی جاتی ہے ۔ پھر اعداد وشمار، گراف اور پریزینٹیشن کے ذریعے ثابت کیا جاتا ہے کہ بچہ تعلیمی میدان میں ترقی کررہا ہے ۔ والدین اور اساتذہ سب خوش ہو رہے ہوتے ہیں کہ بچہ سیکھ رہا ہے ۔لیکن بچہ تو کچھ بھی نہیں سیکھ رہا ہوتا ۔ وہ صرف نمبر اور گریڈ حاصل کر رہا ہوتا ہے ۔اوراسے ان نمبروں اور گریڈ کی بھاری قیمت چکانا پڑ رہی ہوتی ہے ۔ اس کی تعلیم کی بنیاد، عمر بھر سیکھنے کا ہنر ،اس کے اندر کا فطری تجسس آہستہ آہستہ دم توڑ رہا ہوتا ہے ۔حتیٰ کہ ایک دن یہ تجسس ختم ہوکر رہ جاتا ہے ۔ وہ بچہ جو شوق اور خوشی سے سیکھ رہا ہوتا ہے اس کے لیے سیکھنے سے بڑھ کر کوئی بور عمل نہیں ہوتا ۔وہ بادل ِ ناخواستہ سکول جاتا ہے اورچھٹی کرکے بھاگ آتا ہے ۔ چھٹی کے دن وہ جشن مناتا ہے ۔ سکول تجسس کیسے ختم کرتا ہے؟ سکول کے پاس بچے کا تجسس ختم کرنے کا پورا ایک میکانزم ہوتا ہے ۔ایک تدریج کے ساتھ وہ تجسس کو ختم کردیتا ہے ۔ سکول بچے کے تجسس کے ساتھ کیا سلوک کرتا ہے ؟ آئیے جائزہ لیتے ہیں ۔ (i۔ سوالات کو اہمیت نہ دینا چھوٹا بچہ انگلی کے اشاروں سے سوالات کرتا ہے ۔وہ چھت پر لگے پنکھے کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔ آپ اس کے جواب میں کہتے ہیں ’’پنکھا‘‘ ۔ اسے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کا اشارہ(سوال)اہم تھا جس کا جواب اسے ملا۔اگر آپ اس کے اشارے کو اہمیت نہ دیں تو کچھ عرصے بعد وہ انگلی کے اشارے (سوالات)کم کردے گا ۔1984 میں Barbara TizardاورMartin Hughes کی ایک تحقیق کے مطابق برطانیہ میں مڈل کلاس فیملی کے بچوں میں تجسس زیادہ ہوتا ہے ۔ جب کہ ورکنگ کلاس والدین کے بچوںمیں تجسس کم ہوتا ہے۔ اس لیے کہ مڈل کلاس خاندانوں کے پاس بچوںکے لیے وقت ہوتا ہے ۔ وہ بچوں کی باتیں سنتے ہیں، ان کے سوالات سمجھتے ہیں اورجوابات دیتے ہیں یوں وہ بچوں کے تجسس کی تسکین کا سامان کرتے ہیں ۔اس کے برعکس ورکنگ کلاس والدین کے پاس بچوں کے لیے وقت نہیں ہوتا کہ وہ بچوں کی باتیں سن سکیں اور ان کے سوالات کو ریسپانس کرسکیں۔اس لیے ان کے بچوں میں تجسس ختم ہو کر رہ جاتا ہے ۔ ہمیں جاننا چاہیے کہ بچوں کوان کے سوالات کا ریسپانس نہ ملے تو وہ سوال کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ اس طرح اگر انھیں منفی ریسپانس ملے تب بھی وہ سوال کرنا ترک کردیتے ہیں ۔ مثلاً بچہ آپ سے کچھ پوچھتا ہے اور آپ اسے کہتے ہیں کہ آپ ابھی چھوٹے ہو ، آپ کو نہیں پتا، وقت آنے پر آپ کو پتا چل جائے گا ، میں بعد میں آپ کو بتائوں گا ، اپنی مما سے جا کر پوچھ لوغیرہ وغیرہ۔اس طرح کے منفی ریسپانس بچے کے تجسس کے لیے زہرِ قاتل ہیں۔ سکول میں بچے کے ساتھ کیا ہوتا ہے ؟ اول تووہاں سوالات پوچھنے کا ماحول ہی نہیں ہوتا ۔استاد بولتا ہے بچے سنتے ہیں اورپیریڈ ختم ہوجاتا ہے ۔ ایسے ماحول میں بچے کا سوال کرنا ماحول سے مطابقت نہیں رکھتا ۔ اس لیے بچہ سوال نہیں کرتا۔ پھر بچے کے سوال نہ کرنے کی اور بہت سی وجوہات ہوتی ہیں ۔ چھوٹے بچے کو اپنا سوال بنانے اور اسے اپنی زبان میں ڈھالنے میں دقت کا سامنا ہوتا ہے ۔ سوال کرنے کے لیے اسے وقت چاہییے ہوتا ہے ۔لیکن استاد کے پاس وقت نہیں ہوتا ۔ اس کا تدریسی کام تیزی سے آگے بڑھ رہا ہوتا ہے ۔ بچے کے سوال کرنے سے پہلے استاد اگلے موضوع پر پہنچ چکا ہوتا ہے ۔اس طرح بعض اوقات بچہ سوال کرنے سے ڈرتاہے کہ کہیں اس کا مذاق نہ اڑایا جائے، استاد کو غصہ نہ آجائے یااس کا سوال غیر اہم سمجھ کر نظر انداز نہ کردیا جائے۔ وہ پوری کلاس کے سامنے بولنے میں بھی جھجھک محسوس کرتا ہے ۔ایسے میں بچے کو تھپکی دینے اور اس کی حوصلہ افزائی کرنے والا کوئی نہیں ہوتا ۔ بچے تو سوالات نہیں کرتے اور ہمیں کچھ وجوہات کا اندازہ بھی ہوگیا لیکن بعض اچھے سمجھے جانے والے سکولوں میں استاد بچوںکے سامنے سوالات ضرور اٹھاتے ہیں لیکن بدقسمتی سے وہ ان سوالات کو کلاس روم ڈسکشن کا حصہ نہیں بناتے۔ یوں یہ سوالات بھی بے معنی ہوجاتے ہیں ۔ وہ خود سوالات اٹھاتے ہیں اور بچوں کی طرف سے حقیقی جواب آنے سے پہلے خود ہی ان کا جواب دے دیتے ہیں۔ اللہ اللہ خیر صلا۔ اصل میں استاد کی توجہ سوال سے زیادہ اس کے جواب پر ہوتی ہے ۔ اس کو ایک ہی فکر دامن گیر ہوتی ہے کہ کسی طرح بچے جوابات یاد کرلیں ۔ (ii تعلیم کی خیالی دنیا بچے کے تجسس کا عمل متحرک ہوتا ہے اور زندگی سے متعلق ہوتا ہے ۔وہ چیزوں کا مشاہد کرتا ہے ،انھیں چھوتا ہے ، محسوس کرتا ہے ،ان کے بارے میں سوچتا ہے اور ان کا نقش اس کے ذہن پر مرتسم ہوجاتا ہے ۔ جن چیزوں کو وہ چھو نہیں سکتا انھیں چھوئی گئی چیزوں پر قیاس کرتا ہے ۔سکول میں بچے کے سامنے ایک خیالی دنیا ہوتی ہے ۔ تعلیمی مواد(Learning Material) میں جو کچھ پڑھنے کے لیے دیا جاتا ہے ۔بچہ اس کے ساتھ تعامل نہیں کرسکتا۔ اور نہ ہی وہ اس کی عملی زندگی سے متعلق ہوتا ہے ۔ اس کے سامنے’ قلم‘ نہیں ہوتا ۔ بلکہ کتاب میں دی گئی’ قلم‘ کی تصویر ہوتی ہے ۔ اس تصویر کے ساتھ’قلم‘ کی تعریف وہ نہیں ہوتی جس سے وہ طرح طرح کی تصویریں بناتا ہے ، اپنے ہاتھ اور جسم پر جس سے لکیریں کھینچتا ہے ۔جس کی نوک اسے چبھ جاتی ہے اور اسے درد محسوس ہوتا ہے ۔ قلم کی وہ تعریف دی گئی ہوتی ہے جو اس کی زندگی سے زیادہ لگا نہیں کھاتی ۔ اسی طرح بچے کی سیکھنے کی فطری دنیا تو بہت رنگین ہوتی ہے ۔ یہ متنوع آوازوں ،طرح طرح کے ذائقوںاور مختلف حرکات سے بھری ہوتی ہے ۔ سکول کا ماحول روکھا پھیکا ، ساکن اور بے کیف ہوتا ہے ۔ایسا ماحول جس میں بچے کو چپکے ہوکے بیٹھنا ہوتا ہے ۔ نہ رنگ ہوتے ہیں اور نہ ہی ذائقے۔ یہ ماحول بچے کے تجسس کو کھا جاتا ہے ۔ (iii نئے اور غیر متوقع تجربات کی گنجائش نہ ہونا بچے کے سیکھنے کا ایک خاص مزاج ہوتا ہے جس میں اس کی ذہنی عادات ، معلومات حاصل کرنے کا مخصوص طریقہ اور ان معلومات کواستعمال کرنے کا ایک منفرد عمل بروئے کارآتا ہے ۔ اس عمل میں وہ نئے تجربات کرتا ہے ایسے تجربات جو غیر متوقع ہوتے ہیں ۔ان تجربات سے وہ نئی چیزیں دریافت کرتا اور سیکھتا ہے ۔ اور یہ بات شروع ہی سے اس کے مزاج میں شامل ہوتی ہے ۔پیدائش کے وقت اس کے لیے دنیا کی ہر شے نئی ہوتی ہے ۔ وہ مختلف آوازوں، چہروں اوراشیا کی جانب بڑے اشتیاق سے دیکھتا ہے ۔پھر وہ اس دنیا سے مانوس ہونے لگتا ہے ۔اور اس کے لیے کچھ چیزیں پرانی اور دیکھی بھالی ہوجاتی ہیں اور بہت ساری چیزیں ابھی تک نئی اور ان دیکھی ہوتی ہیں۔ اسے نئی چیزیں دیکھنے ، چھونے اور دریافت کرنے کی چاہ ہوتی ہے۔ دو ماہ کی عمر کے بچے کی آنکھوں کے مختلف اشیا لائی جائیں۔ تو وہ مانوس اور پرانی چیزوں کو چیزوں کونظرانداز کرکے نامانوس اور نئی چیزوں میں دلچسپی لے گا۔ بچے کی اسی نفسیات کو مدنظر رکھتے ہوئے ماہرین نفسیات بچوں کے لیے ایسے کھلونے تجویز کرتے ہیں جو فکس نہ ہوں ۔ اور جو صرف ایک سمت میں گھومتے یا حرکت نہ کرتے ہوں ۔ایسے کھلونے ہوں جن کی حرکات کی آپشن زیادہ(Open Ended) ہوں تاکہ بچے انھیں اپنی مرضی سے حرکت دے سکیں، ان کی شکلیں تبدیل کرسکیں اور اپنے تخیل کے زور پر نئے تجربات کرسکیں ۔ ایسا کرنے سے بچے کے تجسس کی تربیت اور اس کو متحرک رکھنے کا سامان ہوسکے گا۔ سکول کے لیے اس بات کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی کہ بچہ کیسے سوچتا ہے اور کیسے سیکھتا ہے۔اس کے سامنے سیکھنے کے طے شدہ معیارات (Learning Standards)ہی اہم ہوتے ہیں جو نصابی خاکے (Curriculum) میں مذکور ہوتے ہیں ۔ بلاامتیاز تمام طلبہ کو ان معیارات کی پیروی کرائی جاتی ہے ۔سکول میں ان معیارات سے باہر نکلنے اور نئے تجربات کرنے کی گنجائش نہیں ہوتی ۔ وہاں دائرے سے باہر (Out of Box) سوچنے کا کوئی تصور نہیں ہوتا ۔ بچے کو بلیک اینڈ وائٹ انداز میں سوچنے پر مجبورکردیا جاتاہے ۔ سکول یہ بتاتا ہے کہ سیکھنے کا ایک ہی راستہ اور ترتیب ہے جس کی پابندی ضروری ہے ۔ وہاں یہ نہیں بتایا جاتا کہ ایک ہی چیز کے سیکھنے کے بہت سے راستے بھی ہوسکتے ہیں ۔ سیکھنے کا وہ راستہ بھی اختیارکیا جاسکتا ہے جو بچے کو پسند ہو ، جو اس کے ذہنی میلانات اور شخصیت سے تال میل رکھتا ہو ۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ سکول میں بچے کا تجسس ٹھٹھر کر رہ جاتا ہے اور اس کی تخلیقی صلاحیتیں اور قائدانہ خوبیاں ختم ہوجاتی ہیں۔ (ivبچے سے سیکھنے کا کنٹرول لے لینا بچے کا تجسس اس کے سیکھنے کا سب سے بڑا رہنما ہوتا ہے ۔ ماہرین نفسیات کہتے ہیں کہ بچہ کوئی کام کر (مثلاً کھیل ) رہا ہو تو اس کے کام میں مداخلت مت کریں ۔وہ کھیلنے کے کمرے میں کھلونے اور مختلف اشیا بکھیر دیتا ہے۔آپ کو بے ترتیبی سے الجھن ہوتی ہے ۔ وہ کھلونوں سے اپنے انداز اور طریقے سے کھیلنا چاہتا ہے آپ اسے اصل طریقہ بتانا چاہتے ہیں ۔ لیکن بچے کو آپ کی یہ مداخلت پسند نہیں آتی۔ وہ نہیں چاہتا کہ آپ اسے(بغیر کسی فطری ترغیب کے) ڈیکٹیٹ کریں اور اس سے سیکھنے کا کنٹرول لے لیں۔وہ اپنے طور پرکھیلنا چاہتا ہے اور سیکھنا چاہتا ہے ۔ اوریہ اس کے تجسس کو تروتازہ رکھنے کے لیے ضروری بھی ہے۔ہمیں جاننا چاہییے کہ بچہ چیزوں کی الٹ پلٹ اس لیے کررہا ہوتا ہے کیونکہ وہ ان چیزوں کے پیچیدہ پیٹرن(Intricate Patterns) کوسمجھنے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے ۔اس دوران وہ اپنے ہاتھ پائوں اور کپڑے بھی گندے کردیتا ہے ۔ اس پر آپ کو فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں ۔ یہ سب اس کے سیکھنے کا حصہ ہوتا ہے ۔ آپ کا کام یہ ہے کہ آپ اسے تحفظ اور مدد دیں۔ نقصان پہچانے اور ٹوٹنے والی چیزیں اس کی پہنچ سے دور کردیں ۔ کھیلنے کے بعد کمرے میں چیزوں کو سلیقے سے رکھ دیں۔اس کا جسم اور کپڑے صاف کردیں ۔ ایک وقت کے بعد وہ خود اپنی مرضی سے چیزوں کو ترتیب سے رکھنا اور صاف ستھرا رہنا سیکھ جائے گا ۔ جب بچہ سکول پہنچتا ہے تو بڑوں کا بنایا ہواایک بے لچک اور غیر فطری نظام اس کا منتظر ہوتا ہے ۔سیکھنے کا سارا اختیار اس سے لے لیا جاتا ہے ۔نصاب اور تعلیمی کیلنڈر طے کرتا ہے کہ بچے نے کیا سیکھنا (پڑھنا) ہے، کتنا سیکھنا(پڑھنا) ہے اورکب سیکھنا( پڑھنا) ہے۔پھر جو کچھ بھی سیکھنا ہے وہ بڑوں کی سرپرستی اور نگرانی میں سیکھنا ہے ۔ کیونکہ سکول کو یقین ہوتا ہے کہ بچہ خود کچھ بھی نہیں سیکھ سکتا۔بچے کی رہی سہی خودمختاری کلاس روم مینجمنٹ کے نام پر سلب کر لی جاتی ہے ۔پیریڈ کے نام پر اسے بتایا جاتا ہے کہ اب یہ سیکھو اور یہ سیکھنا بند کردو۔ یہ مداخلت اور بے اختیاری بچے کو اپنی مرضی سے اور آزادانہ سیکھنے سے کوسوں دور کردیتی ہے ۔ (v امتحان کے نقطہ ء نظر سے سکھانا سکول میںجو کچھ سکھایا(پڑھایا) جاتا ہے وہ امتحان میں پاس ہونے کے نقطہ ء نظر سے سکھایا جاتا ہے ۔ متن اور سرگرمیوں کے جن حصوں کا امتحان میں پوچھے جانے کا امکان ہوتا ہے وہی پڑھائے جاتے ہیں ۔ جن حصوں کے امتحان میں آنے کے آثار نہیں ہوتے انھیں نظرانداز کردیا جاتا ہے ۔ یعنی بچوں کو منتخب پڑھائی (Selective Studies) کرائی جاتی ہے ۔اورپھر امتحان بھی بچے کے ’سیکھنے ‘ کا نہیں اس کے حافظے کا ہوتا ہے ۔ چنانچہ بچوں کو منتخب حصے سکھائے نہیں جاتے فقط ان کی معلومات فراہم کی جاتی ہیں ۔ بچے ان معلومات کو اچھی طرح ذہن نشین کرلیتے ہیں۔اور پیپر میں سوالوں کے جواب ٹھیک ٹھیک حل کر آتے ہیں لیکن وہ تصورات کی حقیقی تفہیم سے کوسوںدور ہوتے ہیں ۔ جب ایک تصور کی تفہیم ہی ٹھیک نہ ہوگی تو اس میں بچے کا تجسس چہ معنی دارد؟ بچہ اچھے نمبر لے لیتا ہے ۔ سکول کے لیے اتنا ہی بہت ہوتا ہے ۔ بچے کا تجسس، کھوجنا، دریافت کرنا، ذاتی تجربے کرنا اور تخلیق کرنا سکول کے لیے بے معنی ہوتا ہے ۔ ایسے کاموں کے لیے سکول کے پاس وقت ہے اور نہ ہی تعلیمی کیلنڈر اس کی اجازت دیتا ہے۔ (vii۔ بچوں کے سامنے ماڈل کا نہ ہونا بچوںکو جو کچھ آپ سکھانا چاہتے ہیں خود اس کا آپ کو نمونہ بننا پڑتا ہے۔اساتذہ اگر متجسس ہوں گے تو بچے بھی متجسس ہوں گے۔ یعنی بچے ماڈل کی پیروی کریں گے ۔بدقسمتی سے بچوں کے سامنے سکول میں (اور گھر میں بھی ) کوئی ماڈل نہیں ہوتا۔ استاد نہ سوالات اٹھاتے ہیں ،نہ مختلف چیزوں پر حیران ہوتے ہیں اور نہ ہی جوابات کھوجتے ہیں ۔وہ نئے نئے تجربات بھی نہیں کرتے ۔ اب لاکھ کہا جائے کہ بچے میں تجسس پیدا ہو ان کے سامنے تو کوئی ماڈل ہی نہیں ہے۔ تجسس کیوں ضروری ہے؟ تجسس صرف بچے کے سیکھنے ہی میں کردار ادا نہیں کرتا ۔بچے کی دیگر مہارتیں اور صلاحیتیں بھی اس سے جڑی ہوتی ہیں ۔ خودی،خود اعتمادی، تخلیق،لچک، ماحول سے ہم آہنگی جیسی خوبیاں تجسس کی دین ہوتی ہیں۔Kathy Seal کے بقول متجسس بچے زیادہ محنت کرتے ہیںاور سکول اور عملی زندگی میں کامیاب ہوتے ہیں ۔ تجسس کو لے کر پروان چڑھنے والے بچے مطالعے سے محبت کرتے ہیں ۔وہ مختلف موضوعات پر ہونے والی گفتگو میں دلچسپی لے سکتے ہیں ۔ اس لیے وہ زیادہ گھلنے ملنے والے ہوتے ہیں، ان کی شخصیت دلچسپ ہوتی ہے اور ان کے دوست بھی زیادہ ہوتے ہیں۔متجسس ذہن زیادہ پرامید بھی ہوتے ہیں ۔Dr Martin Sligman نے تجسس کو ان چوبیس صفات میں شامل کیا ہے جو ہمارے اندر خوشی کے استحکام کا باعث بنتی ہیں۔ کرنے کا کام ہمارا سب سے قیمتی اثاثہ ہمارے بچے ہیں اور بچوں کا سب سے قیمتی ’اثاثہ‘ ان کا تجسس ہے ۔اس اثاثے کی حفاظت کرنا اور اسے ترقی دینا والدین اور اساتذہ دونوں کی ذمہ داری ہے ۔ والدین کے لیے لازم ہے کہ وہ گھر میں بچوں کو وقت دیں اوران کی بات توجہ سے سنیں ۔ چھوٹا عمر میں بچہ جب صاف گفتگو نہیں کرسکتا اور بظاہر بے معنی انداز میں بڑبڑاکر کچھ کہنے کی کوشش کرتا ہے ۔ اس وقت بھی اس کی بات سمجھنے کی کوشش کریں۔ آپ کی سمجھ میں بات نہ آرہی ہو تب بھی اس کو ریسپانس دیں ۔چاہے صرف’’جی ‘‘ کہہ دیں یا مسکرادیں ۔ ذرا بڑا بچہ کسی چیز کے بارے میں جاننا چاہے تو اس کے سوال کا براہِ راست جواب دینے کی بجائے اس کے سوال کو اس کی جستجو(Quest) میں بدل دیں ۔ اس سے کہیں کہ ہم مل کر جاننے کی کوشش کرتے ہیں یا اسے ریفرنس (مثلاً انٹرنیٹ پر موجود ویڈیو، یا تصویروں والی کتاب وغیرہ)بتادیں تاکہ بچہ خود سوال ڈھونڈنے کی کوشش کرے ۔ اس طرح بچے کے تجسس کو مہمیز ملے گی ۔وہ کوئی جگہ یا چیز دریافت کرے تو اس کے بارے میں پوچھیں ۔اس طرح اس کے مشاہدات کی حوصلہ افزائی ہوگی ۔ اس کو اپنی مرضی کا مشغلہ (Hobby) اختیار کرنے دیں ۔ سکول چونکہ بچوں کو تعلیم دینے اور ’سکھانے‘ کا دعویٰ رکھتا ہے ۔اس لیے سکول پر بچے کی ذمہ داری زیادہ ہے ۔ تجسس بچے کی فطرت کا حصہ ہوتا ہے ۔ سکول کے لیے مشکل نہیں کہ سکھانے کے عمل میں بچے کے تجسس کولے کر چلے ۔ لیکن اس کے لیے موجودہ نظام تعلیم میں بنیادی اصلاحات کا نفاذ لازمی ہے ۔ نصابی خاکے کی تدوین سے لے کر ، درسی کتب کی تصنیف ، نظام ِ امتحانات کی تشکیل، اساتذہ کے انتخاب اور ان کی تربیت تک انقلابی تبدیلیوں کی ضرورت ہے ۔ یہ طویل اور صبر آزما کام ہے ۔ اس کے نفاذ سے پہلے ہم موجودہ سکول سسٹم کو بچے کی فطرت سے ہم آہنگ کرنے کے لیے ضروری اقدامات کر سکتے ہیں ۔ تجسس کے بارے میں ہمیں جاننا چاہییے کہ اس کی سطح کم اور زیادہ ہوتی رہتی ہے ۔ اوراس کا انحصارماحول، افراد اور کام کی نوعیت پر ہوتا ہے ۔متجسس بچے ڈل ماحول اور افراد کے ساتھ رہ کر اپنے تجسس کو برقرار نہیں رکھ پاتے۔ سب سے پہلے ہمیں سکول کے ماحول کو دلچسپ اور تخلیقی نوعیت کا بنانا ہوگا۔ایسا ماحول جو بچے کے تجسس کو متحرک کر سکے۔اس کے ساتھ ساتھ ہمیں سیکھنے سکھانے کے لگے بندھے اور روایتی طریقوں سے ہٹ کر غیر روایتی طریقوں پر بھی توجہ مرکوز کرنا ہوگی ۔ایسے طریقے جو بچے کی فطرت سے میلان رکھتے ہوں ۔ جن کے ذریعے بچے کے لیے سیکھنے کا عمل مسرت انگیز عمل بن سکے ۔ بچے کو ریاضی کے سوالات صرف درسی کتاب ہی سے نہیں پڑھائے جاسکتے ۔ روزمرہ زندگی کی مثالوں اور طریقوں سے بھی جمع تفریق سمجھائی جاسکتی ہے ۔ایسے سبقی منصوبے (Lesson Plans) بنانے ہوں گے جو بچے کے تجسس سے مخاطب ہوسکیں۔ بچے کی خودمختاری کا احترام کرتے ہوئے کلاس روم مینجمنٹ کو ممکن بنانا ہوگا۔ ایسا اس وقت ہوسکتا ہے جب بچے میں استدلال (Reasoning)کے ذریعے احساسِ ذمہ داری پیدا کردیا جائے۔ سکول میں ایسا طالب علم دوست ماحول پیدا کرنا ہوگا جہاں بچہ بلا خوف و خطرسوال کرسکے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ استاد کو بچوں کے سامنے ایک ماڈل بننا ہوگا۔

No comments:

Post a Comment