ریحام خان کو طلاق کا میسج ملا، کتوں کا کمروں میں داخلہ بھی بند تھا
لندن(مانیٹرنگ ڈیسک) ایک برطانوی اخبار نے دعویٰ کیاہے کہ عمران خان نے ای میل نہیں بلکہ موبائل فون پر ایس ایم ایس کے ذریعے ریحام خان کو طلاق دی اور اس ضمن میں عمران خان نے ایس ایم ایس میں تین بار ”طلاق“ کا لفظ لکھا۔ اس کے بعد انہوں نے مزید ایک مختصر سی ای میل بھی ریحام خان کو بھیجی گئی ،اخبار نے لکھاکہ عمران خان کے دوستوں سے لے کر اس کے بہت عزیز کتوں کے بیڈروم میں آنے تک میاں بیوی میں ہر ایک بات پر سخت جھگڑا رہتا تھا،دونوں کی شادی جس قدر شدومد کے ساتھ ہوئی اسی قدر تندوتیز جھگڑوں کے درمیان اختتام پذیر ہوئی جبکہ ریحام خان جمائما سے عمران کے قریبی تعلقات پر بھی حاسد
تھیں ۔
رپورٹ کے مطابق جب عمران خان نے ایس ایم ایس کے ذریعے طلاق بھیجی اس وقت ریحام خان برمنگھم جانے والی پرواز میں موجود تھیں، جب وہ برمنگھم ایئرپورٹ پر اتریں تو انہیں طلاق کا ایس ایم ایس موصول ہوا۔ ایس ایم ایس اور ای میل موصول ہونے کے بعد ریحام خان کو عمران خان کے چیف آف سٹاف کی طرف سے ایس ایم ایس ملنے کی تصدیق کے لیے فون کال بھی کی گئی تھی۔
ڈیلی میل نے ذرائع کے حوالے سے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ عمران خان نے اپنی ”منہ زور“ بیوی سے جان چھڑانے کے لیے طلاق کا فیصلہ کیا، اگر ریحام خان کو معلوم ہوتا ہے اسے طلاق ہونے والی ہے تو وہ کبھی بنی گالہ نہ چھوڑتی اور برمنگھم نہ جاتی۔طلاق کا ایس ایم ایس ملنے پر ریحام خان کو شدید جھٹکا لگا تھا اور وہ بری طرح دلبرداشتہ ہو گئی تھی۔اسے تحریک انصاف کا ایک سینئر عہدیدار گاڑی میں برمنگھم سے لندن لے کر گیا جہاں عمران خان کے ایک قریبی ساتھی نے طلاق اور بھاری رقم کے لین دین پر ریحام خان سے مذاکرات شروع کیے۔اس قریبی ساتھی کا نام زلفی بخاری ہے جو ایک ارب پتی بزنس مین ہے۔ زلفی بخاری نے نائٹس برج کے قریب ایک ہوٹل میں ریحام خان سے 3گھنٹے کی ملاقات کی۔ اس کے بعد دونوں ایک لگژری گاڑی میں روانہ ہو گئے۔
شادی کے فوراً بعد ریحام خان نے اپنے دوستوں کو بتایا کہ عمران خان کے بنی گالہ محل میں نظم و ضبط نام کی کوئی چیز نہیں ہے اور وہاں ایک اودھم مچا ہوا ہے۔ ریحام خان نے سب سے پہلے عمران خان کے کتوں کا اندر کے کمروں میں داخلہ بند کر دیا اور انہیں کونے میں موجود ایک کمرے تک محدود کر دیا۔ عمران خان کی متعدد ”التجاﺅں“ کے باوجود ریحام خان نے کتوں کو گھر میں آنے کی اجازت نہ دی۔ اس کے بعد گھر کی ازسرنو تنظیم کی گئی جس میں سب سے زیادہ ریحام خان کی 2 بیٹیوں اور ایک بیٹے کی تمام ضروریات کا خیال رکھا گیا۔ایک بیٹی ریحام کے ساتھ رہتی تھی جبکہ دیگر 2اکثر وہاں آتے رہتے تھے۔
شادی کے بعد ریحام خان کے رشتہ داروں کا بنی گالا میں تانتا بندھ گیا ، وہ روز آتے تھے لیکن عمران خان کے بھانجوں اور دیگر رشتہ داروں کے ساتھ وہاں انتہائی سردمہری برتی جاتی تھی۔خاندانی ذرائع کے حوالے سے ڈیلی میل لکھتا ہے کہ بنی گالہ ایک میدان جنگ بن گیا تھا کیونکہ ریحام خان اپنے شوہر عمران خان کی زندگی کے تمام پہلوﺅں پر قبضہ کرنے کا تہیہ کیے ہوئے تھی۔ریحام خان نے عمران خان کی زندگی کو دوزخ بنا کر رکھ دیا تھا۔ حیران کن طور پر ان حالات کو عمران خان جتنا طول دے سکتے تھے انہوں نے دیا۔ عمران خان اور ریحام خان کے درمیان ہر اس بات پر جھگڑا ہوا جس پر ممکن تھا۔ کتوں کے بیڈ روم میں آنے سے لے کر دوستوں کے ملنے ملانے تک۔ ریحام خان اپنے شوہر عمران خان کے اپنی سابق بیوی جمائما خان سے قریبی تعلقات پربھی بہت حسد کرتی تھی۔
اخبار کے مطابق دوسری طرف عمران خان کی بہنوں نے اپنے بھائی پر واضح کر دیا تھا کہ جب تک ریحام خان اس کے گھر میں موجود ہے وہ وہاں نہیں آئیں گی۔گھر میں تفرقات کے علاوہ ریحام خان نے عوام کے سامنے بھی عمران خان کے موقف سے کئی بار اختلاف کیا۔ پاکستان جیسے قدامت پسند ملک میں جہاں خواتین خاصی شرمیلی ہوتی ہیں اور ایک حد سے آگے جانے کا سوچ بھی نہیں سکتیں وہاں ریحام خان نے ہر بری وجہ سے شہرت پائی اور میڈیا کی شہ سرخیوں کی زینت بنتی رہی۔اس نے اپنے سابق شوہر ڈاکٹر اعجاز رحمان کے ساتھ اختلافات پر بھی درگزر نہیں کیا بلکہ عمران خان کے ساتھ شادی کے بعد انہیں مزید بڑھاوا دے کر دنیا کے سامنے پیش کیا۔
ڈیلی میل نے رپورٹ میں لکھا ہے کہ ریحام خان پاکستانی سیاست میں بھی عمران خان سے بڑھ کر کردار ادا کرنے پر بضد تھی، وہ میڈیا کے لیے عمران خان سے زیادہ خبر بن گئی تھی۔میڈیا اسے عمران خان سے کہیں زیادہ کوریج دے رہا تھا، ریحام خان کیا کھا رہی ہے، کیا پکا رہی ہے، کیا پہن رہی ہے ہر چیز دکھائی جا رہی تھی اور عمران خان کو اس بات پر سخت تحفظات تھے کیونکہ یہ بات اس کے سیاسی پیغام کے سراسر خلاف تھی۔ اس نے تحریک انصاف کے اندرونی اختلافات کو اس قدر بڑھا دیا تھا کہ تحریک انصاف کو مالی امداد فراہم کرنے والے پارٹی رہنماﺅں اور عمران خان کے مابین تعلقات بھی کافی حد تک کشیدہ ہو گئے تھے۔
No comments:
Post a Comment